the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

دین اسلام باہمی روابط ، میل ملاپ ، الفت ومحبت اور نصح وخیرخواہی پر قائم ہوا اور عدل وانصاف  رواداری اور عفو درگذر کے ذریعہ سارے عالم میں پھیلا ہے، اسلام نے اپنے پیروکار کو سلام ومصافحہ کو عام کرنے اور دوسرے بھائی سے طویل غیاب کے بعد ملنے پر معانقہ کرنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم اسی وجہ سے ہے کہ دلوں کے اندر الفت ومحبت پیدا ہو اور مومنین کے درمیان اخوت وبھائی چارگی پروان چڑھے ، اس طرح ایک مسلم سماج اپنے اسلام کے ساتھ پرسکون وپرلطف زندگی بسر کرسکتا اور زندگی کے پیام کو عام کرسکتا ہے، اسی طرح خندہ روئی دوسرے انسان کے اندر خوشی ومسرت اور فرحت وانبساط پیدا کرتا ہے، ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے کہ کسی سے مسکراتے چہرے اور خندہ روئی کے ساتھ ملنے اور ترش روئی ومنہ بنا کر اور بے اعتنائی وبے حسی کے ساتھ ملنے میں بڑا فرق ہے، اور اس کا سامنے والے پر دور رس اثر پڑتا ہے، اسی لئے مسلمان کسی بھی نیکی ، بھلائی اور خیر ومعروف کو حقیر نہیں سمجھتا، خواہ اپنے بھائی سے ہشاش وبشاش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو، بلا شبہ رواداری ، رکھ رکھائو ، اور چشم پوشی کی بات کہنے اور سننے میں تو بہت اچھا لگتا اور عقل اسے قبول کرتی ہے مگر یہ نفس پر بہت بوجھل ہوتا اور عملی میدان میں اسے برتنا اور عملی جامہ پہنانا نفس پر بڑا شاق ہوتا ہے،ہم اپنے گردوپیش میں دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے بیشتر اس اخلاق سے عاری ہوتے، اور وہ اپنے آپ کو ان اوصاف سے متصف کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ اس کے برعکس ان کے اندر سختی، تیزی ، خشونت اور اجڈ پن ہوتا ہے، وہ معمولی باتوں پر غضبناک ہوجاتے ، کسی کی بات کو برداشت کرنا پسند نہیں کرتے، مزاج کے خلاف چاہے معمولی سی بات ہی کیوں نہ ہو، ناراض وغصہ ہوجاتے ہیں، ان میں غرور وتکبر ہوتا ہے جو انہیں اپنے آپ کو بالا وبرتر ثابت کرنے یا سمجھنے پر مجبور کرتا اور جو ان کے اس انا کو ٹھیس پہنچاتا اور ان کے زعم کبریائی پر نکیر کرتا یا اس میں قول وفعل سے خلل ڈالتا ہے اس کے خلاف ان کے دل میں آتشیں جذبات ابلنے لگتے ہیں، جس کا اظہار ان سے بدزبانی وبد سلوکی کے ذریعہ ہونے لگتا ہے اس کے برعکس جو رواداری اور چشم پوشی کرنے والا ہوتا ہے، وہ صفت کرم سے متصف ہوتا ہے، یہ کرم ایسے ہی لوگوں سے صادر ہوتا ہے جن کے نفوس پاک وصاف ہوتے ، ان کے دلوں میں وسعت ہوتی اور لوگوں کی غلطیوں ونادانیوں سے اس میں تنگی پیدا نہیں ہوتی، دوسروں کی لغزشوں اورخطائوں سے دل میں کدورت پیدا نہیں ہوتا، ان کے دل میلے نہیں ہوتے، اور نہ دوسرے کے ورغلانے سے بھڑکتے ہیں، اس صفت سے متصف ہو کر وہ کریم بن جاتا ہے، اور کرم نام ہے سختی کی گھڑی میں بھی داد ودہش کرتے رہنے، اور اپنا حسن سلوک جاری رکھنے کا، لوگ اس کے ساتھ بدکلامی کرتے اس کی ہتک عزت کرتے ان پر تنقیدیں کرتے اور اہانت کرتے ہیں پھر بھی وہ اس کے ساتھ بہتر سلوک کرتا رہتا اور عفو ودرگذر کا دامن پکڑے رہتا ہے، اس طرح کریم انسان کا مقام ومرتبہ بڑھتا رہتا اور اس حسن اخلاق سے وہ بلندی کا سفر طے کرتا رہتا اور اس قدر بلندی پر پہنچ جاتا ہے کہ لوگ اس پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺنے اپنوں اور پرایوں ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنے کی تاکید فرمائی اور کسی بھی حال میں اسے نظر انداز کرنے سے منع فرمایا ہے۔
 امام بخاری ؒ نے الادب المفرد میں ایک صحابی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی واحسان کرتے ، حلم وبردباری اور تسامح وچشم پوشی سے پیش آتے تھے مگر دوسرے کی جانب سے جواب الٹا ہی ملتا تھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک تم اس حالت کو قائم رکھو گے اللہ کی جانب سے ان کے مقابلہ میں تمہارا ایک مددگار رہے گا۔
عفو ودرگذر ، رکھ رکھائو اور تسامح وچشم پوشی اللہ کا‘ محبت والفت کا اور سعادت وخوش بختی کا راستہ ہے، گناہوں کے کام کو ترک کرنے کا ذریعہ اور ملامت ورسوائی سے نجات پانے کا پل ہے، ہم جانتے ہیں کہ باہمی محبت سعادت مندی کی بنیاد ہے۔ ایسی زندگی بڑی پر کیف وپر بہار ہوتی ہے، جس میں لوگ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس سے پورا ماحول مرغ زار بن جاتا ، قلب وروح کو راحت وسکون محسوس ہوتا اور پوری



آبادی امن وامان کی نعمت سے بہرہ ور ہوجاتی ہے۔
رواداری ، میل ملاپ ، رکھ رکھائو اور عفو ودرگذر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ماضی کے تکلیف دہ حالات و واقعات کو بھول جائے اور پختہ ارادہ کرے کہ جو ہوگیا سو ہوگیا، آئندہ ہم اسے نہیں دہرائیںگے، ہم اپنے قلب وروح کو مطمئن کریںگے، اور اب ہم اپنے اندر ناپسندیدگی ، نفرت ، ناراضگی اور انتقام کے جذبے کو در آنے نہیں دیںگے، اب ہم دوسروں کو کسی ایسی وجہ سے جو ماضی میں ہوئی، تکلیف نہیں پہنچائیںگے، یہ عزم ہو کہ ہم دوسروں کے عیوب ٹٹولنے کی بجائے ان کے محاسن اور خوبیوں پر نظر رکھیںگے، بلا شبہ عفو ودرگذر بڑی عظیم صفت ہے ،بلا شبہ ہر انسان غلطی کرتا ہے۔
 کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون
ہر اولاد آدم خطاکار ہے اور سب سے اچھا خطار کار وہ ہے جسے اپنی غلطی پر ندامت ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم کسی کے ساتھ غلطی کریں تو وہ اسے معاف کرے ، درگذر کرے ، چشم پوشی سے کام لے، ہمارے ساتھ حلم وبردباری اور برداشت کے ساتھ سلوک کرے، اور بھلائی کرے جو ہمارے اوپر دین ہو ، ہر کوئی غلطی کرتا اور ہر کسی کو معافی کی طلب ہوتی ہے، اور تسامح ورواداری وچشم پوشی ہی ماضی کے تکلیف دہ آثار کو مٹاسکتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ
وان تعفوا اقرب للتقوی
اور تمہارا معاف کردینا تقویٰ کے بہت ہی قریب ہے۔
دنیا والوں کا سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل اخلاق یہی ہے کہ جو قطع رحمی وقطع تعلق کرے ، اس کے ساتھ جڑیں ،وصلہ رحمی کریں، جو محروم رکھے اسے دیں اور جو نا انصافی کرے اسے معاف کریں، ’’ صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک‘‘ ایمانی رشتوں اور دینی سماج کے اندر معاملہ مواخذہ ومحاسبہ کا نہیں بلکہ مسامحہ اور چشم پوشی وعفو ودرگذر کا ہوتا ہے، اسی کی دعوت اسلام کے اٹوٹ نصوص نے دی ہے اور اسی پر رسول اللہ ﷺنے ابھارا ہے۔ پرہیز گار انسان اور دین فطرت کے راستے کو اپنانے والا شخص وہ ہے جو معاف کرنے اور درگذر کرنے والا ہے، اللہ نے اپنی کتاب میں عفو ودرگذر اور چشم پوشی کرنے کی بڑی تاکید کی ہے، ایسے لوگوں کو محسنین میں شمار کیا گیا ہے جن کیلئے اللہ کی محبت وخوشنودی کی بشارت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین (ال عمران ۱۳۴)
ترجمہ:۔ غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گذر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔
انہیں اس لئے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے غصے کو پی لیتے ہیں، ان کے دل میں کسی سے کینہ وکدورت اور بغض وحسد نہیں ہوتا ، وہ اس طرح کی آلائشوں سے پاک ہوتے ہیں۔
عفور ودرگذر ، تسامح ورکھ رکھائو اور آپسی میل ملاپ بلا شبہ بڑی اونچی چیز ہے، اس مقام ومرتبہ کو وہی پہنچ سکتا ہے جس کا دل اسلامی تعلیمات کی پیروی کیلئے کھل چکا ہو، اس کا نفس اس طرح کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہوچکا اور اپنانے کے لئے آمادہ ہوچکا ہو، اور وہ اللہ کے پاس جو اجر وثواب اور اعزاز واکرام ہے، اسے نفسانی خواہشات اور جذبہ انتقام پر ترجیح دیتا ہو، آج کے سڑے ہوئے معاشرہ اور ہر چہار جانب بغض وعناد کے پھیلے ہوئے ماحول میں اس وصف کو بطور خاص اپنانے کی ضرورت ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اخیر شب آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور ہر مغفرت چاہنے والوں کو بخشتا ہے، سوائے ان دونوں کے جن کے درمیان کدورت اور بغض وعناد ہوتا ہے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، انظروھما حتی یصطلحا ، انہیں چھوڑے رکھو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح ومصالحت کرکے دل صاف کرلیں،(موطا مالک، حسن خلق)
ان بابرکت ایام میں ہمیں چاہیے کہ ہم اس بنیادی وصف کو اپنائیں تاکہ ہماری عبادتیں ، ہمارے صیام وقیام اور تلاوت واذکار ہمیں کام آسکیں۔


                            نثاراحمد حصیر القاسمی
            سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
                    nisarqasmi24@gmail.com
                        0091-9393128156

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2025 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.